زن و زنجیر | Md Shahbaz Alam

کبھی سیتا تجھے جانا کبھی دیوی تجھکو

کبھی حوا ہے پکارا کبھی میری تجھکو

تجھے عورت تو یہاں پر کبھی مانا ہی نہیں

کبھی جنتو تجھے سمجھا کبھی دیوی تجھکو

تو ہے بازار کی زینت کبھی مردوں کی عنا

کہیں ماں بہنوں کی صورت میں ہے عزت کی بقا

تیری آواز کو ہر دم ہے دبایا سب نے

کہیں برقعیں میں مقید کہیں گھونگھٹ کی سزا

کبھی آواز جو ان سے تیری اعلی نکلی

ہو کہ زنجیر گلے کا تیرے ساماں نکلی

ہے انہیں خوف کے آگے نہ کہیں تو نکلے

تبھی ہر روپ میں تو مذہبی جاما نکلی

کبھی دلسوزی میں انکے تو غزل بن بیٹھی

تیرے ناموں سے سجائی گئی گالی ان کی

کبھی کوٹھے پہ رکھا تو کبھی محبوبہ

ان کے کھلوار کا سامان اصل تو ہی بنی

تجھے تاریخ کے پنوں سے بھی اوجھل رکھا

تجھے گھر بار کے کاموں میں ہی بوجھل رکھا

تیرا دنیا سے کبھی سامنا ہونے نہ دیا

تجھے بھلانے کو دل تیرا اس نے چھل رکھا

ہے گناہ گار یہاں بیٹھا ہر اک فرد تیرا

کبھی سمجھا ہی نہیں حال تھا جو زرد تیرا

جسے پیدا کیا ہر درد سحن کر تو نے

تجھے کمزور کہاں بھول گئے درد تیرا

تو اگر اب بھی میری جان یو خاموش رہی

ان بھرم پالنے والوں سے جو تھوڑا بھی ڈری

یہ تجھے اور دبائینگیں ، رلائینگیں تجھے

اب بھی گر جان میری اپنے حق کو تو نہ لڑی

اب انہیں یاد دلا حق ہے یہاں پر جو تیرا

یہ زمین تیری بھی ہے ، ہے یہ آسماں تیرا

یہ ہوا پانی سر سبز گل و شادابی

جتنا اس مردہ کا ہے ، ہے یہ وہ اتنا تیرا