کبھی سیتا تجھے جانا کبھی دیوی تجھکو
کبھی حوا ہے پکارا کبھی میری تجھکو
تجھے عورت تو یہاں پر کبھی مانا ہی نہیں
کبھی جنتو تجھے سمجھا کبھی دیوی تجھکو
تو ہے بازار کی زینت کبھی مردوں کی عنا
کہیں ماں بہنوں کی صورت میں ہے عزت کی بقا
تیری آواز کو ہر دم ہے دبایا سب نے
کہیں برقعیں میں مقید کہیں گھونگھٹ کی سزا
کبھی آواز جو ان سے تیری اعلی نکلی
ہو کہ زنجیر گلے کا تیرے ساماں نکلی
ہے انہیں خوف کے آگے نہ کہیں تو نکلے
تبھی ہر روپ میں تو مذہبی جاما نکلی
کبھی دلسوزی میں انکے تو غزل بن بیٹھی
تیرے ناموں سے سجائی گئی گالی ان کی
کبھی کوٹھے پہ رکھا تو کبھی محبوبہ
ان کے کھلوار کا سامان اصل تو ہی بنی
تجھے تاریخ کے پنوں سے بھی اوجھل رکھا
تجھے گھر بار کے کاموں میں ہی بوجھل رکھا
تیرا دنیا سے کبھی سامنا ہونے نہ دیا
تجھے بھلانے کو دل تیرا اس نے چھل رکھا
ہے گناہ گار یہاں بیٹھا ہر اک فرد تیرا
کبھی سمجھا ہی نہیں حال تھا جو زرد تیرا
جسے پیدا کیا ہر درد سحن کر تو نے
تجھے کمزور کہاں بھول گئے درد تیرا
تو اگر اب بھی میری جان یو خاموش رہی
ان بھرم پالنے والوں سے جو تھوڑا بھی ڈری
یہ تجھے اور دبائینگیں ، رلائینگیں تجھے
اب بھی گر جان میری اپنے حق کو تو نہ لڑی
اب انہیں یاد دلا حق ہے یہاں پر جو تیرا
یہ زمین تیری بھی ہے ، ہے یہ آسماں تیرا
یہ ہوا پانی سر سبز گل و شادابی
جتنا اس مردہ کا ہے ، ہے یہ وہ اتنا تیرا